گمشدہ سوناروس کے صوبہ کیمیروو کے گورنر امان تولی ایو نے صوبے کے باشندوں سے اپیل کی ہے کہ کولچاک کا گمشدہ سونا تلاش کریں۔ان کو امید ہے کہ اگر کسی کو اس مہم میں کامیابی نصیب ہو گئی تو اس خزانے کا آدھا حصہ صوبے کے بجٹ میں شامل کیا جا سکے گا۔1917 میں روسی سلطنت میں انقلاب آ گیا تھا۔ خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ بالشویکوں کے خلاف لڑنے والے ایک دھڑے کی سرکردگی ایڈمرل الیکساندر کولچاک کر رہے تھے۔1918 میں انہیں روس کا حکمران اعلٰی قرار دے دیا گیا تھا۔ ملک میں محفوظ سونے کے ذخیرے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھوں میں تھا۔ یاد دلادیں کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے روس دنیا میں مقدار کے حوالے سے سونے کا تیسرا بڑا حامل ملک تھا۔جلد ہی الیکساندر کولچاک کو گرفتار کر کے گولی مار دی گئی تھی۔ سونا سوویت حکومت کے ہاتھ لگ گیا تھا لیکن اس میں تب کے حساب سے تئیس کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کا سونا کم تھا۔ یہ سونا کہاں چلا گیا محقق اس کے بارے میں جاننے کی خاطر تقریبا” ایک سو سال سے سر کھپا رہے ہیں۔پرانی دستاویزات کے مطابق سونے کا ایک حصہ ایڈمرل نے فوج کی دیکھ ریکھ پہ خرچ کر دیا تھا۔ کچھ حصہ کولچاک نے چھپا دیا تھا۔ اس بارے میں بہت زیادہ روایات ہیں کہ سونا کہاں مدفون ہو سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ جھیل بیکال کی تہہ میں ہے یا پھر سائبیریا کے شہروں تیومن یا سورگوت میں چھپا ہوا ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ سونا سائیبیریا کے ایک چھوٹے شہر تائگا کے نواح میں مدفون کیا گیا تھا۔یہاں 1919 میں کولچاک کی فوج نے قیام کیا تھا۔ ان کے ساتھ سونے کے 29 چھکڑے تھے۔ تاریخی شواہد کے مطابق تائگا کے سٹیشن پر سونے کے 26 صندوق گم ہو گئے تھے۔ مزید تیرہ صندوق اس سے اگلے سٹیشن سے غائب ہوئے تھے۔صوبہ کیمیروو کے گورنر امان تولی ایو نے انہیں صندوقوں کو ڈھونڈ نکالنے کی عوام سے اپیل کی ہے۔ مگر سائبیریا میں سونے کے خزینے سے متعلق قصے اتنے زیادہ اور متضاد ہیں کہ ان میں سے جھوٹے سچے قصوں کو علیحدہ کیا جانا ممکن نہیں۔ ایک قصہ یہ ہے کہ سونا دفن کرنے کا کام ایک قاصد کو سونپا گیا تھا، جس نے جگہ کی نشانی ذہن میں رکھ لی تھی۔ بہت سالوں بعد اس نے خود وہاں سے سونا تلاش کرنے کی سعی کی تھی۔ اس کے بعد اس کی نشان زدہ جگہ پہ کئی بار سوویت خفیہ ایجنسیوں نے بھی کھدائی کی تھی۔دوسرا موقف یہ ہے کہ سونا کولچاک کے ایک جنرل نے چھپایا تھا۔ اس نے سونا ایک جہاز پر لاد کر دریا میں ایک محفوظ مقام پہ پہنچا دیا تھا۔ تیسرا موقف یہ ہے کہ کولچاک کے اہلکاروں نے ہی اس کا ساڑھے آٹھ سو کلوگرام سے زیادہ سونا چرا لیا تھا۔ چونکہ سردیاں تھیں اس لیے انہوں نے سونا چھپناے کی خاطر گڑھے کھودنے کی مشقت نہیں کی تھی بلکہ سونے کی اینٹیں اور دیگر قیمتی اشیاء کئی جھیلوں میں سے ایک میں غرق کر دیے تھے۔ایک سو سال سے کولچاک کا سونا تلاش کرنے کی خاطر سائبیریا کے تائیگا میں دسیوں مہمات میں شامل لوگ جان مار چکے ہیں۔ دانشور کولچاک کی سوانح حیات پڑھ کر اندازہ لگانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں کہ خزانہ کہاں مدفون ہوگا۔ کبھی یہاں سے تو کبھی وہاں سے خزانہ تلاش کرنے والوں کو سونے کی ایک ڈلی جس پر زار کی مہر کندہ تھی یا کوئی سونے کا سکہ ضرور ملا لیکن سب نے نفی کر دی کہ یہ وہ نہیں ہے۔ سونے سے بھرے گمشدہ صندوق اب تک دستیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ ممکن ہے کہ گورنر موصوف کی اپیل سے خزانے میں دلچسپی لیے جانے کی ایک نئی لہر پیدا ہو اور کولچاک کا گمشدہ سونا تلاش کر لیا جائے۔

Read Previous

“پیر روخان

Read Next

وزیراعلی خیبر پختونخواہ علی امین خان گنڈاپور کی میڈیا ٹاک

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *