وہ میری عادت ہے میری قاری ہے میری ساتھی ہے میں رخصت کرتے ہوئے اور بعد میں کیا محسوس کروں گا احساس بہت تکلیف دہ ہےتحریر ۔ساجد آمان ۔                   میری بیٹی کی رخصتی 30 اپریل 2023 کو طے ہے، یوں #شادی کی تقریبات یکم مئی کو مکمل ہوں گی یوں معاشرتی معنوں میں یہ ایک خوشی کی بات ہے مگر میں دل گرفتگی میں ہوں ہانیہ ساجد امان کی پیدائش تب ہوئی تھی جب ہماری رہائش لاہور میں تھی۔ بہت اچھے محل وقوع اور بہترین پڑوس میں رہتے ہوئے بھی آپ مادر وطن میں نہیں ہوتے تو دوسرے درجے کے شہری بحر حال ہوتے ہیں خوا آپ کتنے ہی باوقار اور با اعتماد محسوس کرے آپ پٹھانوں کے گھر کے نام سے پکارے اور جانے جاتے ہیں۔ یہ عجیب قسم کا امتیاز ہر جگہ ہوتا ہے ہم بھی سات پشتوں تک کسی کو گرین کارڈ نہیں دیتے پنجابی ، کشمیری پہچان اور تاریخ کے ساتھ ضرور لگاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر انسانی خصوصیات و خصلت سے بڑھ کر اس کی نسل میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ کتوں،بلیوں، گائے ، بھینسوں میں بھی ہمارا طرز ایسا رہتا ہے جو شاید با معنی بھی ہے مگر انسانی نسل میں ذیلی نسل پر اصرار مجھے اپنی آنا کی تسکین ہی لگتا ہے۔ لاہور میں رہتے ہوئے تین چوتھائی پاکستان میری سلطنت تھا جس کے دورے میری مزدوری تھی اور اسی سے کمائی تھی کشمیر، گلگلت بلتستان ، خیبرپختونخواہ ، بالائی پنجاب ، وسطی پنجاب ، جنوبی پنجاب میں کوٹ سبزل تک پنجاب و سندھ کا آخری قصبہ میرے رحم کرم پر دیکر مجھے قابل رحم کیا گیا تھا یوں میں گھر میں گندے کپڑے دھلوانے و استری کروا کر بھاگ نکلنے تک ممبر تھا میری بچی مانوسیت کے حد تک میرے ساتھ تب پہنچی جب میں نے دیکھا کہ بہت چھوٹی ہے میں گھر سے گاڑی نکال رہا ہوں وہ ماں کی گود میں ہے اور میری طرف لپک رہی ہے اس دن گاڑی نکال کر سیاہ تارکول پر دوڑتے ہوئے اپنی بے بسی اور گویا غلامی پر بہت رنجیدہ تھا۔ 2009 میں جب مجھے کراچی جانا پڑا تو فیملی کراچی لے جانا شاید ممکن نہیں تھا کراچی ٹارگٹڈ کلنگ اور نسلی فساد کے بد ترین آگ میں جل رہا ، شمالی پاکستان فرقہ واریت اور عسکریت پسندی کی شدید لپیٹ میں تھا اگر عملی طور زندگی کہیں پر سکون تھی وہ پنجاب میں تھا ، جہاں میرا خاندان سماجی تنہائی کے احساس میں دہرا ہو رہا تھا اور کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی کہ رہائش لاہور میں ہی رکھی جائے۔ سوات شفٹ ہونے کے بعد میں پاکستان کے ایک آخری کنارے اور خاندن دوسرے آخری کنارے پر تقسیم ہوگیے۔ ایک خلیج نا قابل برداشت و عبور حائل ہوگیا ۔ پیشہ ورانہ زندگی کی یاداشتوں پر مبنی الگ سے ایک تفصیلی بحث لکھنے کا پروگرام ہے جس کے کئی نوٹس اور یاداشتوں پر مبنی صفحات پہلے ہی لکھ چکا ہوں یقیناً پیشہ ورانہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی رہنمائی اگر نہیں ہوگی محضوظ ضرور ہونگے باس یا افسر کا انتخاب آپ نہیں کرتے مگر ایک آئیڈیل باس کی امید ہر کوئی کرتا ہے پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف افسران کے نیچے کام کرنے کا موقع ملا جن میں انتہائی ایماندار ، صاف گو اور راست باز لوگ بھی رہے اور ایسے بھی رہے جن کو غصے کے علاؤہ کچھ نہیں آتا تھا۔ ایسے مصنوعی دانشور بھی دیکھے جو گوگل کرکے دھاک بٹھانے میں ماہر اور کینہ پروری میں یکتا تھے۔ ایسے بھی جو احساس کمتری کے مارے مسخروں کی طرح اشارے کرتے اور جبر کرتے کہ ان کا احترام کیا جائے۔ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم کے مصداقمالک کے سامنے اپنے وجود کی نفی کرنے والے ، زاہد و عابد بن جانے والے اور چمچے مسکے لگا کر نوکری پکی کرنے والے اور زیردست لوگوں کے لیے آسمان ہمیشہ نیچے رکھنے والے بھی قریب سے دیکھے پیشہ ورانہ زندگی میں سختی اور تندی ملازمت کا بحرحال تقاضا ہوتا ہے میں جب بھی اپنے خاندان سے ملا اپنی بیٹی سے جدا ہونا پھر سب سے مشکل رہا مجھے احساس ہی نہیں ہوا کب اس نے بولنا شروع کیا چھوٹی چھوٹی باتیں مگر پہلا لفظ اس کا پاپا ہی تھا جو اس نے پہلا مکمل ادا کیا تھا 2016 میں مجھے کمر کی تکلیف شروع ہوئی تو کئی دفعہ مجھے بیڈ ریسٹ کا مشورہ ملا ۔ تکلیف میں عجیب سا سکون ملتا میری بیٹی دیوانگی کی حد تک مجھ سے منسلک رہی اور میری تکلیف ختم ہوکر پھر کام پر طویل جدائی میں نکلتا تو اس کے لیے دعا مشکل رہتی کہ میری بیماری طویل ہو کہ میں گھر پہ رہوں یا میری تکلیف ختم ہوئی پھر کھبی نہ آئے اگر کسی کو میرا میری بیٹی کے ساتھ رقابت کا عجیب سے جزبہ ہوتا وہ میری بیوی کا ہوتا وہ کہتی نہ نہ لڑکی ہے اس کی ہر خواہش کے آگے سرنگوں ہونا ایک دن ضرور رولائے گا۔ لڑکی ہے لڑکا نہیں ۔ اور مجھے احساس محرومی آ پکڑتی میری بیوی نے میرا بہت ساتھ دیا آدھی محبت آدھی خاندانی دلچسپی نے ملکر میری شادی ممکن کی اس نے بہادری اور جوان مردی سے میری زندگی میں سہولت دی۔ رونا دھونا اور شکوہ شکایت سے آگے مجھے خبر نہ ہونے دی بچوں کے سکول ، ڈاکٹر ، کپٹروں کے فکر کروں لاہور جیسے دیار غیر میں بھی کم از کم یہ فکر کھبی رکاوٹ نہیں بنی میں چار بچوں کے ساتھ پانچواں بچہ بن کر پلتا رہا ہوں 2018 کے مارچ میں جب مجھے بیماری کے سبب ملازمت چھوڑنی پڑی رہی تھی میری بیٹی بہت خوش تھی جبکہ میری بیوی مستقبل کی بے یقینی کا ذکر کرتی اور کہتی کروگے تو کیا اس کا جواب میرے پاس بھی نہیں تھا میں جو 1992 سے ایک نئی شناخت کے ساتھ 1997 میں شادی کے 2000 میں عملی طور پر شہر چھوڑ چکا تھا اور اٹھارہ انیس سالوں میں شہر مجھے بھول چکا تھا میری شناخت ایک اجنبی کی سی تھی جس کو رشتہ دار اور کچھ قریبی جاننے والے بھلا نہیں پائے تھے۔ میرے لہجے پر وقت کے نشان تھے اور صورت بھی مسافت میں ڈھل چکی تھی اپریل 2018 کے بعد ایک نئی اور مختلف زندگی شروع کرتے وقت ہر دفعہ مایوسی اور بے یقینی نے استقبال کیا 2018 میں شروع کرنے والے کاروبار پر اگلے ہی سال فروری کے آخر میں کرونا وبا نے ترقی کے دروازے بند کر دئے جو ابھی پورا ایک بھی نہیں گزار سکا تھا اور ابھی ابتدائی جدوجہد میں تھا میں نے تمام افشنز ختم کر رکھے تھے کہ میں دوبارہ ملازمت شروع کروں یا کاروبار کی نوعیت بدل دوں جس کی مشورہ ہر طرف سے مل رہا تھا مگر میں ایک طویل عرصہ جدائی اور بغیر شناخت کے رہ کر حوصلہ نہیں کر پا رہا تھا معیار زندگی آمدن کی کمی کے ساتھ پہلے ہی دن بہ دن خراب ہو رہا تھا اور اس کا اثر پورے خاندان کے اعتماد پر پڑ رہا تھا مگر میری بیٹی مجھے حوصلے دیتی اور کہتی شروع میں ایسے ہی ہوتا ہے ہمارے پاس سب کچھ اور سب سے بڑھ کر اپ۔ میں اس کی خواہش ساتھ رہنے کی تمنا سمجھتے ہوئے اس سے خود کو مطمعن کرتا میری خواہش تھی کہ وہ پڑھے اور جتنا پڑھ سکے پڑھ پائے وہ پوچھتی پاپا اگر مجھے ملک سے باہر جانا پڑ جائے تعلیم کے لیے تو آپ کیا محسوس کریں گے میں کہتا بہت ہی غرور و فخر اور وہ بہت خوش ہوتی افسوس وہ صرف میٹرک تک پہنچ پائی میں ہار گیا کہ اس کا رشتہ کروں سب کی یہی خواہش تھی اور دنیا کی سب سے مختلف بیٹی جس سے ہر بات کرنے اور سننے کی طاقت رکھتا تھا شاید اس رشتے پر کوئی بات نہ کر سکا کیونکہ شادی کی بات بلکہ موضوع پر بپھر جانی والی اس رشتے کے ہونے کی متمنی لگ رہی تھی مجھے الفاظ سننے کی ضرورت نہیں تھی میں رویہ پڑھ رہا تھا میری بیوی جس سے ہر جنم ہر بار شادی کرنے کو ترجیح دونگا اور واحد ترجیح رہے گی بھی کھل کے نہیں کہہ رہی تھی مگر مجھے رشتے کی مخالفت سے روک رہی تھی میرا داماد میری بہین کا بیٹا میری پھوپھی کا پوتا میرے سامنے ہے جو ہمیشہ ہی مجھے اتنا عزیز رہا انجینرنگ کرکے ابھی فارغ ہوا ہے وہ کئی بہنوں کا اکلوتا بھائی اؤر میری بیٹی تین بھائیوں کی اکلوتی بہن معلوم نہیں معاشرتی طور پر یہ بہت خوشی کی بات ہے اور میں خوش ہوں سب بہت خوش ہیں مگر بیٹی کی جدائی کا درد ہر خوشی پر غالب ہے معلوم نہیں یہ پیار ہے انسیت ہے یا خود غرضی کہ میری بیٹی ہوتے ہوئے بھی وہ مجھے اس کے بیٹے کی طرح سلوک کرتی رہی ہے۔ میرے آنے کا انتظار ، میرے کھانے کی فکر ، میرے سونے جاگنے کے خیال ۔ میری طبیعت اور موڈ کی بخوبی واقفیتایسا شاید سلوک میں کھبی نہ پا سکوںہر لمحے ایک آواز اور اس پر اگلے ہی لمحے دلفریب خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ موجودگی اور کسی بھی فرمائش پر بغیر کسی ماتھے پر شکن کے فورآ سے پیشتر عمل پچھلے سال کی تحریر

یہ محض ایک تصویر نہیں ۔۔۔ اس تصویر میں میری کہانی ہے جس کے لکھنے کی ہمت میں کر نہیں پا رہا ہوں ۔۔...

کاروباری مقابلہ یابزنس کمپٹیشن ایک جائزہ

موجودہ دور میں بھی سب ٹھیک ہو جائیگا اگر آپ ان تجاویز پہ عمل کر لیں تو ! کاروباری اداروں میں ایسا مقابلہ، جس میں دو یا اس سے زیادہ ادارے بیک وقت ایک...

“کوربن والے” اک بھولی بسری پختون روایت

کامریڈ امجد علی سحابیہ سنہ چھیاسی ستاسی کی بات ہے جب میری عمر بمشکل سات سال ہی ہوتی ہوگی۔ ابھی میری خالہ کی شادی میں دو تین روز باقی تھے کہ ہمارے نانا...

فردوسی اور محمود غزنوی

مشہد میں دو دن (2) **فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے اسے بلایا، شعر سنے اور وعدہ کیا تم جب شاہ نامہ مکمل کر لو گے تو میں تمہیں ہر شعر...

گمشدہ سوناروس کے صوبہ کیمیروو کے گورنر امان تولی ایو نے صوبے کے باشندوں سے اپیل کی ہے کہ کولچاک کا گمشدہ سونا تلاش کریں۔ان کو امید ہے کہ اگر کسی کو اس مہم میں کامیابی نصیب ہو گئی تو اس خزانے کا آدھا حصہ صوبے کے بجٹ میں شامل کیا جا سکے گا۔1917 میں روسی سلطنت میں انقلاب آ گیا تھا۔ خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ بالشویکوں کے خلاف لڑنے والے ایک دھڑے کی سرکردگی ایڈمرل الیکساندر کولچاک کر رہے تھے۔1918 میں انہیں روس کا حکمران اعلٰی قرار دے دیا گیا تھا۔ ملک میں محفوظ سونے کے ذخیرے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھوں میں تھا۔ یاد دلادیں کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے روس دنیا میں مقدار کے حوالے سے سونے کا تیسرا بڑا حامل ملک تھا۔جلد ہی الیکساندر کولچاک کو گرفتار کر کے گولی مار دی گئی تھی۔ سونا سوویت حکومت کے ہاتھ لگ گیا تھا لیکن اس میں تب کے حساب سے تئیس کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کا سونا کم تھا۔ یہ سونا کہاں چلا گیا محقق اس کے بارے میں جاننے کی خاطر تقریبا” ایک سو سال سے سر کھپا رہے ہیں۔پرانی دستاویزات کے مطابق سونے کا ایک حصہ ایڈمرل نے فوج کی دیکھ ریکھ پہ خرچ کر دیا تھا۔ کچھ حصہ کولچاک نے چھپا دیا تھا۔ اس بارے میں بہت زیادہ روایات ہیں کہ سونا کہاں مدفون ہو سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ جھیل بیکال کی تہہ میں ہے یا پھر سائبیریا کے شہروں تیومن یا سورگوت میں چھپا ہوا ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ سونا سائیبیریا کے ایک چھوٹے شہر تائگا کے نواح میں مدفون کیا گیا تھا۔یہاں 1919 میں کولچاک کی فوج نے قیام کیا تھا۔ ان کے ساتھ سونے کے 29 چھکڑے تھے۔ تاریخی شواہد کے مطابق تائگا کے سٹیشن پر سونے کے 26 صندوق گم ہو گئے تھے۔ مزید تیرہ صندوق اس سے اگلے سٹیشن سے غائب ہوئے تھے۔صوبہ کیمیروو کے گورنر امان تولی ایو نے انہیں صندوقوں کو ڈھونڈ نکالنے کی عوام سے اپیل کی ہے۔ مگر سائبیریا میں سونے کے خزینے سے متعلق قصے اتنے زیادہ اور متضاد ہیں کہ ان میں سے جھوٹے سچے قصوں کو علیحدہ کیا جانا ممکن نہیں۔ ایک قصہ یہ ہے کہ سونا دفن کرنے کا کام ایک قاصد کو سونپا گیا تھا، جس نے جگہ کی نشانی ذہن میں رکھ لی تھی۔ بہت سالوں بعد اس نے خود وہاں سے سونا تلاش کرنے کی سعی کی تھی۔ اس کے بعد اس کی نشان زدہ جگہ پہ کئی بار سوویت خفیہ ایجنسیوں نے بھی کھدائی کی تھی۔دوسرا موقف یہ ہے کہ سونا کولچاک کے ایک جنرل نے چھپایا تھا۔ اس نے سونا ایک جہاز پر لاد کر دریا میں ایک محفوظ مقام پہ پہنچا دیا تھا۔ تیسرا موقف یہ ہے کہ کولچاک کے اہلکاروں نے ہی اس کا ساڑھے آٹھ سو کلوگرام سے زیادہ سونا چرا لیا تھا۔ چونکہ سردیاں تھیں اس لیے انہوں نے سونا چھپناے کی خاطر گڑھے کھودنے کی مشقت نہیں کی تھی بلکہ سونے کی اینٹیں اور دیگر قیمتی اشیاء کئی جھیلوں میں سے ایک میں غرق کر دیے تھے۔ایک سو سال سے کولچاک کا سونا تلاش کرنے کی خاطر سائبیریا کے تائیگا میں دسیوں مہمات میں شامل لوگ جان مار چکے ہیں۔ دانشور کولچاک کی سوانح حیات پڑھ کر اندازہ لگانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں کہ خزانہ کہاں مدفون ہوگا۔ کبھی یہاں سے تو کبھی وہاں سے خزانہ تلاش کرنے والوں کو سونے کی ایک ڈلی جس پر زار کی مہر کندہ تھی یا کوئی سونے کا سکہ ضرور ملا لیکن سب نے نفی کر دی کہ یہ وہ نہیں ہے۔ سونے سے بھرے گمشدہ صندوق اب تک دستیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ ممکن ہے کہ گورنر موصوف کی اپیل سے خزانے میں دلچسپی لیے جانے کی ایک نئی لہر پیدا ہو اور کولچاک کا گمشدہ سونا تلاش کر لیا جائے۔

...

“پیر روخان

“پیر روخان”ترجمہ: کامریڈ امجد علی سحابؔپیرروخان کا اصل نام سراج الدین بایزید انصاری تھا۔ ان کا اہلِ خانہ جنوبی وزیرستان کے علاقہ کانی گرام...

دل جہانگیری کے لئے مشہور ہندوستان کا مغل بادشاہ جہانگیر

عدل جہانگیری کے لئے مشہور ہندوستان کا مغل بادشاہ جہانگیر 1627ء میں کشمیر سے واپسی پر راجوڑی کے مقام پر وفات پا گیا۔ اس کی بیوی ملکہ نورجہاں نے شاہی...

نہاری ایک خوش ذائقہ پکوان تاریخ دانوں کے مطابق ، 17 ویں صدی میں ، شاہ جہاں کو دہلی میں اپنا دارالحکومت قائم کرنے کے فورا بعد ہی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے ایک بڑی تعداد میں پھیلا ہوا فلو بھی تھا اس زمانے میں سردی بھی بہت عروج پر تھی اور شاہجہان اپنی فوج کو اس فلو اور سردی سے بچانے کے لیے سوچنے لگا اس کے بعد ہی شاہی خانسامہ اور(شاہی حکیم) نے مصالحے سے بھرے ایک مضبوط اسٹائو تیار کرنے کے لئے اپنے ہاتھ جوڑ لئے جو جسم کو گرم اور مضبوط بنائے گا۔ لہذا ،اس طرح نہاری کی ابتدا ہوئی اور دہلی میں تو نہاری کی دھوم آج تک ہے جس میں کریم کا نام سر فہرست ہے مجھے وہاں جا کر نہاری کھانے کا شرف حاصل ہو چکا ہے وہاں بیٹھے ایک استاد کے مطابق یہ ان کی ساتویں نسل ہے جو نہاری کے ذائقہ کو برقرار رکھے ہوئے ہیں ان کے رشتہ دار لاہور میں بھی ہیںلفظ “نہار” عربی زبان سے شروع ہوا ، “نہار” جس کا مطلب ہے “صبح”۔ یہ اصل میں نوابوں نے مغل سلطنت میں صبح کی نماز کے بعد ناشتے کے طور پر کھایا تھا۔ یہ بعد میں اپنی توانائی بڑھانے کی خصوصیات کی وجہ سے محنت کش طبقے کے لئے ناشتے کا باقاعدہ ڈش بن گیا نہاری کے ساتھ کسی قسم کی روٹیاں بنائی جاتی تھی جن میں سب سے مشہور دودھ والی روٹی ہےقیام پاکستان کے وقت لاہور اور کراچی میں دہلی سے بہت عمدہ دہلی کے پکوان بنانے والے آئےلاہور میں تو صرف سوداگران دہلی والوں کے لیے دہلی کے خانسامے مختص ہوا کرتے تھے اس دور میں کشمیر سے واضوان بھی آئے یعنی ماسٹر شیف مگر افسوس وہ لاہور میں چل نہ سکےلاہور میں استاد سمیع باورچی ، شیوفو بھائی ، استاد دبیر دلی پکوان بنانے میں بہت مقبول تھے حاجی نہاری ملک نہاری وارث نہاری شاھد نہاری محمدی نہاری یہ سب بعد کے ذائقے ہیں لاہور کی سوداگران برادری کی شادیوں کی تاریخ کا تعین باورچی کی تاریخوں کے مطابق رکھا جاتا تھا مجھے کئ سالوں پہلے سوداگران کی شادی اٹینڈ کرنے کا موقع ملا جو ساڑھی کا کاروبار کرتے ہیں کیا عمدہ اسیٹو اور طرح طرح کے کھانے روغنِ جوش کا نام لکھتے ہی منہ میں پانی آ چکا ہےکسی زمانے میں چاچا مہر بسا کے ہوٹل نعمت کدہ کے ایک شیف سے بہترین کھانے پکوانے کا شرف بھی رہا ہے جو دہلی والوں کے ہاں ملازم تھے اب تو لاھور میں ذائقہ ختم ہوتا جا رہا ہے مصالحہ کی بھرمار نے اصل ذائقہ چھین لیا ہے اور رنگ برنگے باورچیوں نے لاہوریوں سے خوش خوراکی چھین لی چند ایک باورچی جو پرانے کام کرتے چلے آرہے ہیں بہت ہی محدود پیمانے پر اعلی کوالٹی کے کھانے تیار کر کے دیتے ہیں میں کوشش کر رہا ہوں کہ ایسے استادوں کی حوصلہ افزائی کر سکوں جو سوشل میڈیا سے دور ہیں اور یہی ان کے لئے اچھا ہے ۔۔۔یاد رکھیں نہاری کے لئے بونگ اور بہترین مچھلی کا گوشت ہی سے بہترین ذائقہ بن سکتا ہے مگر افسوس بہت ہی مشہور دکانوں پر لال بوٹی کے گوشت میں نہاری بک رہی ہے اور لوگ مزے سے کھا رہے ہیں نا کبھی کسی نے یہ پوچھنا گوارا کیا کہ مچھلی کا گوشت ہے کہ نہیں افسوس ۔۔۔منقول۔۔۔

...

آخر وہ بھی ہماری طرح انسان ہے۔عبدالمجید

رمضان المبارک کا مہینہ آرہا ہے اس کے حوالے سے یہ پوسٹ ضرور پڑھیں اور عمل کیجئے، عورت سحری میں سب سے پہلے جاگتی ہے۔ اور سب گھر والوں کے لیئے سحری تیار...