“پیر روخان

“پیر روخان”
ترجمہ: کامریڈ امجد علی سحابؔ
پیرروخان کا اصل نام سراج الدین بایزید انصاری تھا۔ ان کا اہلِ خانہ جنوبی وزیرستان کے علاقہ کانی گرام سے تعلق رکھتا تھا، لیکن ان کے والد نے ہندوستان کے پنجاب سے شادی کی تھی۔ پیرروخان کی بھی وہاں جالندھر میں سنہ 1521ء کو ولادت ہوئی۔ پختونوں میں فکرِ تصوف کو پروان چڑھانے کے لیے مشہور پیرروخان کا خاندان عراق سے نقلِ مکانی کرکے پختونخوا آیا تھا۔
’’اکبر بادشاہ کے دور میں پیرروخان وزیرستان سے ابھرے۔ آپ کا خاندان تین سو سال قبل آپ کے پردادا ابراہیم دانشمند کی سرکردگی میں بہاؤالدین ذکریا کے ہمراہ عراق سے آیا تھا۔ شہاب الدین سہروردی ان کے پیر اور یہ مرید تھے اور ان دونوں (ابراہیم دانشمند اور بہاؤالدین ذکریا) کو انہوں نے اسلام پھیلانے کی غرض سے ہندوستان بھیجا تھا۔ دونوں نے باہمی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ ایک ملتان میں رہائش اختیار کرلے گا اور دوسرا کوہستان میں۔ پختونوں کی سرزمین (پختونخوا) کو پرانے زمانے میں کوہستان کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد آپ نے رختِ سفر باندھا اور وزیرستان میں ’’کانڈیگرو‘‘ کے علاقہ میں ڈیرا ڈال دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کا خاندان پھیلتا گیا۔ آپ کے ایک لکھاری تذکرۃ الانصار میں لکھتے ہیں کہ ہر دور میں ہمارے خاندان میں سات تا گیارہ اولیائے کرام نے آنکھ کھولی ہے۔ لیکن یہ سب بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح اِدھر اُدھر رہائش پذیر تھے۔ اب ان میں سے کوئی ہندوستان تو کوئی بنگال میں آسودہ خاک ہے۔ جالندھر آپ کا دوسرا جائے مقام ہے اور اس کے علاوہ پیر روخان ایک مجتہد صوفی تھے۔‘‘
پیرروخان کے آباو اجداد ہندوستان آئے، تو کانڑی گرم کے علاقہ میں اور مڑو قبیلہ کے ساتھ سکونت اختیار کی اور پختون ہوئے۔ جب لودھی پختونوں نے ہندوستان کو فتح کیا، تو آپ کے والد بزرگوار دیگر بزرگ لودھیوں کے ساتھ ہندوستان چلے گئے۔
جبکہ پشاور یونیورسٹی کے پشتو اکیڈمی کے بزرگ رکن ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک وزیرستان میں پیرروخان کی رہائش کے حوالہ سے کہتے ہیں: ’’جب پیرروخان کے آباو اجداد ہندوستان آئے، تو کانڑی گرم کے علاقہ میں اور مڑو قبیلہ کے ساتھ سکونت اختیار کی اور پختون ہوئے۔ جب لودھی پختونوں نے ہندوستان کو فتح کیا، تو آپ کے والد بزرگوار دیگر بزرگ لودھیوں کے ساتھ ہندوستان چلے گئے۔ ہندوستان میں جالندھر نامی شہر ہے۔ اس شہر کے نزدیک ایک گاؤں تھا جسے بستئی دانشمنداں کہا جاتا تھا۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مذکورہ گاؤں آپ کے دادا ابراہیم دانشمند کا آباد کردہ ہو، لیکن جب آپ کے والد عبداللہ واپس وزیرستان آئے، تو آپ کی والدہ ان کے ساتھ نہیں آئی۔ پیرروخان کی عمر اُس وقت ایک سال تھی کہ ان کے والد انہیں اپنے ہمراہ وزیرستان لائے اور یہاں رہائش پذیر ہوئے۔ اس کے بعد پیرروخان اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ پلے بڑھے۔ سوتیلی ماں کا رویہ آپ کے ساتھ اچھا نہ تھا، لیکن یہ جینئس (Genius) یا نابغہ لوگ ہوتے ہی ایسے ہیں۔ والد بزرگو ار نے آپ کو دیگر سوتیلے بھائیوں کے ساتھ اس وقت کے مروجہ علوم کے حصول کی خاطر ایک جگہ داخلہ دلوا دیا۔ جب آپ بالغ اور جوان ہوئے، تو تصوف کی راہ اختیار کرلی جسے آج ہم روخانی تصوف کہتے ہیں۔‘‘
روخانی تحریک کی بنیاد ادبی کاموں اور معاشرتی اصلاح کے حوالہ سے کیے جانے والے اقدام سے پڑگئی، لیکن بعد میں مذکورہ تحریک نے سیاسی رنگ اپنا لیا۔ حتی کہ اس نے مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کرلی۔ آپ کی تحریک ہندوستان سے شروع ہوئی تھی، لیکن آپ کے ادبی کاموں کا اثر دور دور تگ پھیل گیا۔ پیرروخان نے نہ صرف پختو کی ایک معیاری املا کو سامنے لانے کیلئے دوڑ دھوپ کی بلکہ شعر و نثر میں بھی طبع آزمائی کی۔ خیرالبیان کو اس کام کی ایک بہتر مثال مانا جاتا ہے، جو پختو ادب کی پرانی کتابوں میں سے ایک گردانی جاتی ہے۔
پیر روخان نے روخانی تحریک کی بنیاد رکھی ہے جو اپنے وقت کی سب سے مؤثر سیاسی، ادبی اور اصلاحی تحریک تصور کی جاتی ہے، مختلف تحریری مواد سے پتا چلتا ہے کہ مذکورہ تحریک ایک سو پچاس سالوں سے زیادہ فعال رہی۔ آپ کے خاندان اور مددگاروں نے مغل سلطنتوں کے لیے بے شمار مشکلات پیدا کیں۔
ڈاکٹر پرویز مہجور کہتے ہیں کہ روخانی تحریک بہت منظم تھی۔ ’’میرے خیال میں پختونخوا کے علاقہ میں سب سے منظم تحریک پیرروخان کی تھی، اس تحریک نے ادب کی بنیاد رکھی۔ پختو ادب کے شعرا پیدا کئے۔ ثقافتی لحاظ سے بھی لوگوں کو بیدار کیا۔ آپ کے ایک شاگرد نے موسیقی کے نئے راگ ایجاد کئے۔ آپ باچا خان جیسے چلتے پھرتے آدمی تھے۔ آپ مذہب کی تبلیغ کیا کرتے تھے، مگر ہمارے بعض بڑے کہتے ہیں کہ آپ کا ایک سیاسی مقصد بھی تھا۔ میرے خیال میں روخانی تحریک کو ہم پختونخوا کی بڑی تحریک کہہ سکتے ہیں۔ خوشحال خان نے بھی آپ ہی سے اثرلیا تھا۔ انہوں نے بھی ایک تحریک چلائی۔ اس طرح میروس خان بابا، احمد شاہ بابا اور پھر باچا خان نے بھی تحریک چلائی۔ ایک کتاب چھپی ہے جس کا نام ہے ’’لہ بایزید نہ ترباچا خانہ پوری‘‘ تو یہ اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے جو اَب تک قائم ہے۔‘‘
ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک پیرروخان کے علمی گھرانے کو روخانی تحریک کے منظم، پائیدار اور بہتر ہونے کی وجہ گردانتے ہیں۔ ان کے کہنے کے مطابق پیرروخان کے خاندان میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی تعلیم یافتہ تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ مذکورہ تحریک سالہا سال فعال رہی۔
’’یہ ایک بہت علمی اور مذہبی گھرانا تھا، تو یقینی بات ہے کہ ایک ایسا علمی گھرانا جہاں تعلیم و تعلم کی آسانی ہو اور وہ اس افادیت سے آگاہ ہوں کہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیم بھی ضروری ہے، اور اس طرح دونوں کی ایک ساتھ تربیت ہو، تو آپ کی اولاد میں اہلیت اور شعور کیسے دکھائی نہ دیتا۔ اس کے ساتھ ان کی اولاد میں جرأت اور بہادری کے آثار بھی نمایاں ہیں۔‘‘
روخانی تحریک نے تصوف کے حوالہ سے بھی بہت کام کیا ہے اور لوگوں کو بنیاد پرستی اور تشدد کی جگہ سیاسی کاموں پر آمادہ کیا ہے۔ پیرروخان کے پیروکار اور مددگار تصوف میں روخانی طریقے اور راستے کو اپنانے کے سلسلے میں صبرو برداشت کا درس دیتے اور بحث و مباحثہ کے ذریعے مسائل کے حل پر اکتفا کرتے۔ روخانی طریقے کے حامی اب بھی ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور دنیا کے باقی ماندہ ممالک میں پائے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر پرویز مہجور خویشکی کہتے ہیں کہ پیر روخان کا مقصد اور ہدف واضح تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ جمہوری سوچ اپنائیں اور کہیں غیر ضروری رسم و رواج کے بندی نہ بن جائیں۔
’’پیرروخان مذہب اور اسلامی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر پختونوں کا معاشرہ یا جماعت تشکیل دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے فارسی زبان میں سراج التوحید نامی کتاب لکھی ہے۔ مذکورہ کتاب میں آپ اپنی تحریک کے آغاز اور مقاصد واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’بادشاہ اپنے ہوس کی تکمیل کی خاطر غریب لوگوں کو آپس میں لڑواتے ہیں اور قاضی پیسوں کے عوض انصاف بیچتے ہیں۔‘‘ یہ کتنی جمہوری سوچ ہے۔ اس کے بعد انہوں نے میاں اور ملا کی سخت مخالف کی ہے۔ کہتے ہیں کہ مذکورہ افراد،لوگوں کے گلی کوچوں میں جاتے ہیں اور ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ہمارے دادا کا حصہ لے آئیں۔ ورنہ تم لوگوں کو مصیبت آکے گھیر لے گی۔ حاجیوں کی مخالفت اس بنیاد پر کی ہے کہ وہ بیت اللہ شریف کے غلاف سے ٹکڑے لاتے تھے۔ جب میں بچہ تھا، تو اکثر دیکھا کرتا تھا کہ جو مرتا تھا، تو بیت اللہ شریف کے غلاف سے لائے ہوئے ٹکڑے اس کی آنکھوں پر رکھے جاتے تھے کہ اللہ مردے کی مغفرت کرے گا۔ پیرروخان کہتے ہیں کہ ان باتوں کی وجہ سے لوگ اعمال پر توجہ نہیں دیتے، اصل مغفرت تو عمل کی وجہ سے ہونی ہے۔‘‘
ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک کے کہنے کے مطابق جب پیرروخان نے دیکھا کہ لوگوں میں سیاسی شعور بیدار ہوچکا ہے اور سماجی برائیاں کسی حدتک کم ہوچکی ہیں، تو انہوں نے اپنی تحریک کو سیاسی شکل دے دی۔
’’ہر تحریک آغاز کے وقت ایک رنگ لے کر کھڑی ہوتی ہے، مذہبی اصلاح کی خاطر، معاشرتی اصلاح کی خاطر، غلط رسم ورواج کی بیخ کنی کی خاطر یا پھر بنی نوع انسان کی اصلاح کی خاطر۔ ایسی تحریک بعد میں اتنی مقبول ہوجاتی ہے کہ لوگ شخصیت کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ اس لئے اس کے بعد اٹھنے والا قدم سیاست اور اقتدار کے حصول کی خاطر ہوتا ہے۔ یوں پھر آدمی مجبوراً سیاست کی طرف چلا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک مذہبی تحریک سے ایک فلسفی یا صوفی اٹھتا ہے، اس کا جو بھی مقصد ہوتا ہے، لیکن بعد میں وہ تحریک اتنا پھیلتی ہے کہ خوا ہ مخواہ سیاست کی طرف چل پڑتی ہے۔ اس کے بعد وہ تحریک جو کام کرتی ہے، تو واضح ہے کہ اس وقت کے حکمران ایسی تحریک کے ساتھ متفق نہیں ہوں گے۔ نتیجتاً مخالفت جنم لے لیتی ہے۔ اس وقت ایک سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت پیدا ہوتی ہے، تاکہ حکمران انہیں کوئی نقصان نہ پہنچاسکیں۔ پھر تو بات صاف ہو جاتی ہے کہ چاہے وہ مذہبی تحریک تھی، تصوف کی تھی یا کوئی اور، پختونوں کی سماجی اور مذہبی اصلاح اور پختونوں کو قوت دینا مقصود تھا۔ پیر روخان کے پوتے اور پڑپوتے مذکورہ تحریک کو آگے لے گئے ہیں۔ ہم جب بعض خارجی شہادتوں کو دیکھتے ہیں، تو ان سے پتا چلتا ہے کہ پیرروخان ایک پختون قوم پرست ہیں۔
زہ باچا د پختنو یم پختنو راپسے زیٔ
زہ بہ ماتی دروازی کڑم، د اَگرے او د فیکری
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے جیتے جی آپ کی تحریک خالص مذہبی تحریک تھی، لیکن آپ کے بعد اس نے سیاسی رنگ لے لیا اور مغل کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ روخانی تحریک نے متعد رُخ اختیار کئے، اس لئے مذکورہ تحریک پر نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی لکھاریوں نے تصوف، سیاست، ادب، سماجی اور اصلاحی ہر حوالہ سے تحریر و تقریر کی ہے۔
پختو ادبیات کے محققین کے کہنے کے مطابق بایزید روخان نے جو آثار چھوڑے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ آپ کو پختو، عربی، پنجابی، ہندی اور فارسی زبانیں آتی تھیں۔ آپ نے شاعری اور نثر دونوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ خیرالبیان کے نام سے آپ کی ایک کتاب شائع بھی ہوئی ہے جس میں آپ نے اُس وقت کے واقعات پر قلم اٹھایا ہے۔
پختو ادبیات کے محققین کے کہنے کے مطابق بایزید روخان نے جو آثار چھوڑے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ آپ کو پختو، عربی، پنجابی، ہندی اور فارسی زبانیں آتی تھیں۔ آپ نے شاعری اور نثر دونوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ خیرالبیان کے نام سے آپ کی ایک کتاب شائع بھی ہوئی ہے جس میں آپ نے اُس وقت کے واقعات پر قلم اٹھایا ہے۔ آپ نے تشدد کا راستہ اپنانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی اصلاح اور ان کی سماجی راہنمائی کی خاطر بھی قلم اٹھایا ہے۔
(نوٹ:۔ یہ تحریر مشال ریڈیو کی شائع کردہ کتاب ’’اتلان‘‘ (پختو) کے مضمون ’’پیر روخان‘‘ کا ترجمہ ہے، جس میں جہانزیب کالج کے پختو سانگہ کے پروفیسر عطاء الرحمان عطاءؔ اور ایڈووکیٹ عطاء اللہ جانؔ نے مترجم کی معاونت فرمائی)۔

Read Previous

ملاکنڈ پیڈیا ۔عمرا خان جندولی اور اسکا جندولی رجمنٹس ۔۔زیر نظر تصاویر میں ایک تصویر عمرا خان جندولی اور دوسرا اسکے جندولی رجمنٹس سے وابستہ  سپاہیوں کی ہے جو چترال ریشون میں فاولر اور ایڈورڈ  (انگریز افسران) کا محاصرہ کئے ہوئے ہیں جو ایک گھر میں محصور ہے ۔یہ مارچ 1895 کی کہانی ہے ۔اب یہاں جندولی رجمنٹس کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں ۔جندولی رجمنٹس کیا ہے ؟.جندولی رجمنٹس جو عمرا خان جندولی کی فوج ہے۔ ہر رجمنٹ میں سات سو سپاہی شامل ہے ۔ جندولی رجمنٹس کا ہر سپاہی ایک فوجی کی طرح  ہتھیار استعمال کرنے کے قابلِ ہے ۔جندولی رجمنٹس کی ایک خاص بات یہ کہ اس میں برطانوی فوج کی نوکریاں چھوڑنے والے میجر ،کرنل وغیرہ بھی شامل ہیں اسکے علاوہ  پنجاب رجمنٹ نمبر 26, نمبر 6 بنگال لانسر ز ،نمبر 40 پٹھان ،نمبر 26 بلوچ رجمنٹ ،نمبر 8 بلوچ رجمنٹ اور دوسرے برطانوی رجمنٹس کی نوکریاں چھوڑنے والے سپاہی اب جندولی رجمنٹس میں نوکریاں کرتے ہیں ۔ جندولی رجمنٹس کے کرنل کو 15 ،میجر کو 12 مقامی افسران کو دس اور سپاہی کو سات کابلی روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے ۔اسکے علاوہ عمرا خان جندولی  کا ایک اور رجمنٹ یاغستانیوں پر مشتمل ہے جس میں دیر ،باجوڑ،اور دوسرے علاقوں کے لوگ شامل ہے ۔چترال کی مہم جوئی 1895 کے دوران چترال ریلیف فورس نے عمر خان  جندولی کی ( جندولی رجمنٹس اور یاغستانی رجمنٹ)  کے ساتھ لڑائیاں لڑی ۔تحریر ۔امجد علی اتمانخیل بحوالہ۔ اپنی نئی کتاب (فاولر کی اسیری اور افغان نپولئین عمرا خان).

Read Next

گمشدہ سوناروس کے صوبہ کیمیروو کے گورنر امان تولی ایو نے صوبے کے باشندوں سے اپیل کی ہے کہ کولچاک کا گمشدہ سونا تلاش کریں۔ان کو امید ہے کہ اگر کسی کو اس مہم میں کامیابی نصیب ہو گئی تو اس خزانے کا آدھا حصہ صوبے کے بجٹ میں شامل کیا جا سکے گا۔1917 میں روسی سلطنت میں انقلاب آ گیا تھا۔ خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ بالشویکوں کے خلاف لڑنے والے ایک دھڑے کی سرکردگی ایڈمرل الیکساندر کولچاک کر رہے تھے۔1918 میں انہیں روس کا حکمران اعلٰی قرار دے دیا گیا تھا۔ ملک میں محفوظ سونے کے ذخیرے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھوں میں تھا۔ یاد دلادیں کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے روس دنیا میں مقدار کے حوالے سے سونے کا تیسرا بڑا حامل ملک تھا۔جلد ہی الیکساندر کولچاک کو گرفتار کر کے گولی مار دی گئی تھی۔ سونا سوویت حکومت کے ہاتھ لگ گیا تھا لیکن اس میں تب کے حساب سے تئیس کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کا سونا کم تھا۔ یہ سونا کہاں چلا گیا محقق اس کے بارے میں جاننے کی خاطر تقریبا” ایک سو سال سے سر کھپا رہے ہیں۔پرانی دستاویزات کے مطابق سونے کا ایک حصہ ایڈمرل نے فوج کی دیکھ ریکھ پہ خرچ کر دیا تھا۔ کچھ حصہ کولچاک نے چھپا دیا تھا۔ اس بارے میں بہت زیادہ روایات ہیں کہ سونا کہاں مدفون ہو سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ جھیل بیکال کی تہہ میں ہے یا پھر سائبیریا کے شہروں تیومن یا سورگوت میں چھپا ہوا ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ سونا سائیبیریا کے ایک چھوٹے شہر تائگا کے نواح میں مدفون کیا گیا تھا۔یہاں 1919 میں کولچاک کی فوج نے قیام کیا تھا۔ ان کے ساتھ سونے کے 29 چھکڑے تھے۔ تاریخی شواہد کے مطابق تائگا کے سٹیشن پر سونے کے 26 صندوق گم ہو گئے تھے۔ مزید تیرہ صندوق اس سے اگلے سٹیشن سے غائب ہوئے تھے۔صوبہ کیمیروو کے گورنر امان تولی ایو نے انہیں صندوقوں کو ڈھونڈ نکالنے کی عوام سے اپیل کی ہے۔ مگر سائبیریا میں سونے کے خزینے سے متعلق قصے اتنے زیادہ اور متضاد ہیں کہ ان میں سے جھوٹے سچے قصوں کو علیحدہ کیا جانا ممکن نہیں۔ ایک قصہ یہ ہے کہ سونا دفن کرنے کا کام ایک قاصد کو سونپا گیا تھا، جس نے جگہ کی نشانی ذہن میں رکھ لی تھی۔ بہت سالوں بعد اس نے خود وہاں سے سونا تلاش کرنے کی سعی کی تھی۔ اس کے بعد اس کی نشان زدہ جگہ پہ کئی بار سوویت خفیہ ایجنسیوں نے بھی کھدائی کی تھی۔دوسرا موقف یہ ہے کہ سونا کولچاک کے ایک جنرل نے چھپایا تھا۔ اس نے سونا ایک جہاز پر لاد کر دریا میں ایک محفوظ مقام پہ پہنچا دیا تھا۔ تیسرا موقف یہ ہے کہ کولچاک کے اہلکاروں نے ہی اس کا ساڑھے آٹھ سو کلوگرام سے زیادہ سونا چرا لیا تھا۔ چونکہ سردیاں تھیں اس لیے انہوں نے سونا چھپناے کی خاطر گڑھے کھودنے کی مشقت نہیں کی تھی بلکہ سونے کی اینٹیں اور دیگر قیمتی اشیاء کئی جھیلوں میں سے ایک میں غرق کر دیے تھے۔ایک سو سال سے کولچاک کا سونا تلاش کرنے کی خاطر سائبیریا کے تائیگا میں دسیوں مہمات میں شامل لوگ جان مار چکے ہیں۔ دانشور کولچاک کی سوانح حیات پڑھ کر اندازہ لگانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں کہ خزانہ کہاں مدفون ہوگا۔ کبھی یہاں سے تو کبھی وہاں سے خزانہ تلاش کرنے والوں کو سونے کی ایک ڈلی جس پر زار کی مہر کندہ تھی یا کوئی سونے کا سکہ ضرور ملا لیکن سب نے نفی کر دی کہ یہ وہ نہیں ہے۔ سونے سے بھرے گمشدہ صندوق اب تک دستیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ ممکن ہے کہ گورنر موصوف کی اپیل سے خزانے میں دلچسپی لیے جانے کی ایک نئی لہر پیدا ہو اور کولچاک کا گمشدہ سونا تلاش کر لیا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *