‏ببر شیر کـو قـتل کرنے والے صحـابـیؓ

‏ببر شیر کـو قـتل کرنے والے صحـابـیؓ
واقعہ کچھ یوں ہے کہ مسلمان فوج اور ایران کی فوج جنگ کے میدان میں جب آمنے سامنے آئے تو مسلمان یہ دیکھ کر حیران اور پریشان ہو گئے کہ ایرانی اپنے ساتھ لڑنے کے لیئے تربیت یافتہ شیر لائے ہیں!!! ان کے اشارے کے ساتھ شیر بھاگتا ہے گرجتا ھے اور حملہ کرتا ہے۔
مسلمان فوج کی پریشانی دیکھ کر مسلمانوں کی فوج میں سے ایک دل والا بہادر آدمی نکلا ‏وہ نڈر بہادر مسلمان ایک خوفناک اور ناقابل یقین طریقے سے شیر کی طرف بھاگا اور شاید تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک آدمی تن تنہا شیر کا شکار کرنے بھاگا ہو! دونوں فوجیں حیرت سے دیکھنے لگیں کہ یہ با ہمت آدمی کون ہے جو اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر یقینی موت کی طرف بڑھ رہا ہے آدمی چاہے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو شیر کا سامنا کیسے کر سکتا ہے!!!
ابھی دونوں افواج کے لوگ سوچ ہی رہے تھے کہ وہ بہادر ہوا کی طرح شیر کی طرف اڑ کر گیا! اس کے سینے میں کامل مسلمان کا ایمان اور ہمت تھی! جو الله کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا بلکہ اس کا عقیدہ تھا کہ شیر ہی اس سے ڈرے گا!
پھر اس نے اپنے شکار شیر پر شیر کی طرح چھلانگ لگائی اور اس پر اپنی تلوار یا خنجر کے پے در پے وار کیے یہاں تک کہ اس نے شیر کو خاک اور خون میں نہلا کر مار ڈالا!!
ایرانیوں کے‏ دلوں میں خوف طاری ہوگیا! کہ یہ کون لوگ ہیں یہ کیسی مخلوق سے پالا پڑا ہے وہ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے جو شیروں سے نہیں ڈرتے دشمنوں کے ذہن پر یہی خوف سوار ہو گیا کہ بھلا شیر کو ایک تن تنہا آدمی کیسے مار سکتا ہے؟ چنانچہ جب جنگ شروع ہوئی تو خوف زدہ دشمن کو مسلمانوں نے جنگ کے شروع میں ہی بھگا دیا جب دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گیا تب سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ اس نوجوان کے پاس گئے اور ان کا ماتھا چوما تو اس جوان نے عاجزی کے ساتھ سعد رضی الله عنہ کے قدموں کو بوسہ دیا اور کہا ‏آپ کی شان نہیں ہے کہ میرا ماتھا چومیں بلکہ میں چومتا ہوں
کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ بہادر شیر کون تھا؟
وہ ہاشم بن عتبہ ابن ابی وقاص تھے جو خود بھی صحابی رسولؐ تھے اور صحابی رسولؐ سعد بن ابی وقاصؓ کے بھتیجے تھے! انکا لقب مرقال تھا یعنی بہت تیز دوڑنے والے! ‏اتنے تیز کہ شیر کو بھی شکست دے ڈالی۔۔

Read Previous

*پہلی بار بلوچستان پولیس میں خواجہ سرا کی بطور کانسٹیبل بھرتی

Read Next

قدیم چینی دور کی کہانی ہے ۔ کہتے ہیں کسی گاؤں میں ایک بوڑھا اپنے نوجوان بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ پرانا سا ایک مکان تھا، ایک کمرے میں باپ بیٹا رہتے ، دوسرے کمرے کو اصطبل بنایا ہوا تھا، وہاں ان کا گھوڑا رہتا ہے ۔ یہ گھوڑا بڑا شاندار اور نہایت اعلیٰ نسل کا تھا۔ بہت پہلے بوڑھے کسان کے ہاتھ ایک گھوڑے کا بچہ لگا، اس نے باپ کی طرح اسے پالا ۔ بڑا ہو کر اس گھوڑے کی خوبصورتی کی دھوم مچ گئی۔ دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے ۔ گاؤں کے رئیس نے اسے دیکھا تو پہلی نظر میں فریفتہ ہو گیا، اس نے بوڑھے کو بلا کر منہ مانگی قیمت کی پیش کش کی۔ کسان نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ گھوڑا نہیں ، میرا بیٹا ہے ، اپنی اولاد کو کوئی فروخت نہیں کرتا۔اور بھی لوگوں نے خریدنے کی کوشش کی ، سب ناکام رہے ۔ گاؤں کے کچھ سمجھدار لوگوں نے بوڑھے کو سمجھایا کہ تم غریب آدمی ہو، ایسے اعلیٰ گھوڑے کو کتنی دیر تک سنبھال کر رکھ لو گے ، اچھی قیمت مل رہی ہے ، بیچ ڈالو، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی یہ گھوڑا چرا کر لے جائے ۔ ایسے ہر مشورے کے جواب میں وہ بابا جی مسکرا دیتے اور بس، بات ختم  ہو جاتی۔ایک دن بوڑھا کسان اور اس کا بیٹا حسب معمول صبح اٹھے تو دیکھا کہ ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلا اور گھوڑا غائب ہے ۔ پریشان ہو کر آس پاس دیکھا، مگر کوئی سراغ نہ ملا۔ بستی والوں کو پتہ چلا تو وہ افسوس کرنے آئے ۔ جن لوگوں نے گھوڑا بیچنے کا مشورہ دیا تھا، انہوں نے فٹ سے طعنہ دیا کہ تمہیں سمجھایا تو تھا کہ گھوڑا بیچ دو ، اس وقت نہیں مانے ۔ اب تمہاری بدقسمتی کہ بغیر کچھ لئے گھوڑا گنوا بیٹھے ۔ کسان یہ سب باتیں سنتا رہا، پھر بڑے اطمینان سے بولا، بھائیو، تمہاری بڑی مہربانی کہ میرے پاس آئے ، اپنی ہمدردی کا اظہار کیا، مگر مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اس میں بدقسمتی کہاں سے آ گئی۔ یہ درست ہے کہ میرے پاس گھوڑا تھا، جو مجھے اپنی اولاد کی طرح عزیز تھا، آج صبح وہ گھوڑا اپنے کمرے سے غائب ہے ۔ اس حد تک تو یہ بات درست ہے، مگر اس کے بارے میں ابھی سے یہ کیسے طے کر لیا گیا کہ یہ بدقسمتی ہے ؟ گاؤں والے بڑے حیران ہوئے ، آپس میں کہنے لگے کہ شائد صدمے کی وجہ سے بابے کا دماغ چل گیا ہے ، یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہزاروں کی مالیت کا گھوڑا چوری ہو گیا۔ بڑبڑاتے ہوئےسب لوگ واپس چلے گئے ۔ دو تین دن بعد اچانک وہ گھوڑا واپس آ گیا، اپنے ساتھ وہ جنگل سے صحت مند، اعلیٰ نسل کے اکیس نوجوان گھوڑے بھی لے آیا۔ گاؤں میں دھوم مچ گئی۔ لوگ آ کر بوڑھے کو مبارکبادیں دینے لگے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم نے اس روز غلط بات کی تھی، گھوڑے کا چلا جانا بدقسمتی نہیں تھی، اصل میں توتمہاری خوش قسمتی تھی، آج پورے اکیس گھوڑے تمہارے گھر آ گئے ۔ کسان نے حیرت سے یہ سب تبصرے سنے اور پھر کہا، بھائیوِ، مجھے ایک بار پھر تمہاری باتوں کی سمجھ نہیں آئی، میرا گھوڑا واپس آ گیا، یہ درست ہے کہ وہ اکیس گھوڑ ے لے آیا ہے ، مگر اس میں خوش قسمتی کی کیا بات ہے ؟گاؤں والے یہ سن کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ۔ چند دن گزرگئے ، کسان کا بیٹا ان جنگلی گھوڑوں کو سدھانے کی کوششوں میں مصروف تھا، ایک دن ایک سرکش گھوڑے نے اسے ایسی پٹخنی دی کہ اس کی ٹانگ ہی ٹوٹ گئی، طبیب نے دیکھا بھالا اور تین مہینوں کے لئے بستر پر آرام کی ہدایت کی۔ ایک بار پھر گاؤں امنڈ آیا۔ ہر ایک نے بوڑھے کے ساتھ ہمدردی کی۔ چند ایک نے صاف گوئی کے ساتھ اعتراف کیا کہ باباجی آپ ہی ٹھیک تھے ، ان اکیس گھوڑوں کا آنا خوش قسمتی نہیں بلکہ درحقیقت بدقسمتی کا اشارہ تھا۔ آپ کا اکلوتا سہارا ، نوجوان بیٹا زخمی ہو گیا، نجانے اس کی ٹانگ درست طور پر جڑ تی بھی ہے یا نہیں ، آپ بوڑھے بندے ہو، تمام کام کاج بیٹا کرتا تھا، اب مشکل ہو گی، آپ کی قسمت خراب ہے کہ ایسا ہو گیا۔ بوڑھے کسان نے یہ سن کر ٹھنڈی سانس بھری اور قدرے جھنجھلاہٹ کے ساتھ کہا ، یارو ہر واقعے میں خوش قسمتی یا بدقسمتی نہ ڈھونڈ لیا کرو، جو بات جتنی ہے ، اتنی ہی بیان کرو، اتنی قطعیت سے کوئی فیصلہ کن رائے نہ دیا کرو، میرا بیٹا گر کر ٹانگ تڑوا بیٹھا، اس حد تک تو تمہاری بات درست ہے ، باقی خوش قسمتی یا بدقسمتی کا حتمی فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے ، قدرت ہی اس کے بارے میں بہتر جانتی ہے ۔دو تین ہفتے گزرے ، اچانک ہی جنگ چھڑ گئی، قریبی ملک کی فوج نے حملہ کر دیا۔ بادشاہ نے جبری بھرتی کا حکم دیا۔ ریاستی اہلکار دوسرے دیہات کی طرح اس گاؤں میں بھی آئے اور بوڑھے کسان کے زخمی بیٹے کے سوا ہر نوجوان کو پکڑ کر لے گئے ۔ گاؤں والے روتے پیٹتے بابے کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم تو تمہیں بےوقوف سمجھتے تھے ، تم تو ہم سب سے زیادہ سیانے نکلے ۔ واقعی تمہارے بیٹے کا حادثہ بدقسمتی نہیں تھا۔ سچ پوچھو تو تمہاری انتہائی خوش قسمتی تھی، ہم سب کے بیٹے جنگ لڑنے چلے گئے ، معلوم نہیں واپس لوٹتے بھی  ہیں کہ نہیں تمہارا بیٹا تو چلو تین چار ماہ میں ٹھیک ہوجائے گا۔ بوڑھے کسان کے پاس سوائے سر پیٹنے کے کوئی چارہ نہیں تھا، بے چارگی سے اس نے کہا، بھائیو اگر تم لوگ اصل بات کو سمجھ لیتے تو کبھی اتنا پریشان نہیں ہوتے ۔ ہم سب بہت جلدی کسی واقعے پر خوش قسمتی ، بدقسمتی کا لیبل لگا دیتے ہیں ، حالانکہ یہ سب تصویر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں ، ہم میں سے کسی کے پاس مکمل تصویر نہیں ، تصویر کا ایک ٹکڑا ہی ہوتا ہے ۔ اسی ٹکڑے کو ہم مکمل تصویر سمجھ لیتے ہیں ۔ ایک ٹکڑا کبھی تصویر کو درست طریقے سے بیان نہیں کر سکتا، اس کے رنگ تک نہیں بتا سکتا۔ ہمیں حتمی رائے دینے کے بجائے انتظار کرنا چاہیے ، جو واقعہ ہوا ہے ، اسے اتنا ہی سمجھنا اور ماننا چاہیے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *